بلدیاتی انتخابات نہ کروانا توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے،اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد ہائیکورٹ کے فاضل جج کاریمارکس میں کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں بلدیاتی انتخابات کیلئے حلف نامہ دیا تھا پھر بھی الیکشن نہیں کروا رہے۔یہ تو توہین عدالت ہوگی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کاکہنا ہے کہ اسلام آباد اتنا سا شہر ہے جس کا بیڑا غرق کر دیا ہے، الیکشن کمیشن کا یہ کام نہیں کہ حکومت کی طرف دیکھے، الیکشن کمیشن نے آزادانہ الیکشن کروانے ہوتے ہیں، سی ڈی اے کے پاس کوئی اختیار نہیں کہ لوکل گورنمنٹ کے فنڈ استعمال کرے۔بلدیاتی انتخابات 31 دسمبر کو کروانے کی پی ٹی آئی اپیل پر جسٹس محسن اختر کیانی کی سربراہی میں ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے سماعت کی۔دوران سماعت الیکشن کمیشن نے بتایا کہ بلدیاتی انتخابات ملتوی کر دیے ہیں۔ یونین کونسلز کی تعداد بڑھنے سے الیکشن ملتوی کیے گئے ہیں۔
ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن انتخابات کروانے میں دلچسپی نہیں رکھتا ؟ یہ بتائیں کیا وفاقی حکومت پہلے سوئی ہوئی تھی، ہم کیوں نا ایڈمنسٹریٹر کی پاور کو معطل کر دیں۔ ایڈمنسٹریٹر لوکل گورنمنٹ کا فنڈ استعمال کیے جا رہے ہی، نہ پچھلی حکومت نہ ہی یہ حکومت بلدیاتی انتخابات کروانا چاہتی ہے ۔ شہر کا، یونین کونسل کی تعداد 125 جو کی ہے وہ 250 کر دیں کوئی فرق نہیں پڑنا۔
تحریک انصاف کے وکیل کا دلائل دیتے ہوئے کہنا تھا کہ 3 چیئرمین اور پچاس ممبر بغیر الیکشن منتخب ہو چکے ہیں جس پر فاضل جج نے کہا کہ جو بغیر الیکشن منتخب ہوئے ان کا کیا اسٹیٹس ہے ، 2 سال سے اس شہر کو بے یارو مدد گار چھوڑا ہوا ہے۔ الیکشن کمیشن کا یہ کام نہیں حکومت کی طرف دیکھے۔ آپ نے الیکشن کروانے ہوتے ہیں آزادانہ، لوکل باڈیز کا فنڈ سی ڈی اے اور ایڈمنسٹریٹر کیوں استعمال کرے؟ سی ڈی اے کے پاس کوئی اختیار نہیں لوکل گورنمنٹ فنڈ استعمال کرے، لوگوں کو یہاں پانی نہیں مل رہا شہر کا کیا حال کر دیا ہے۔