انسان میں جانور کا دل لگانے والے ڈاکٹر کا ڈاؤ یونیورسٹی میں طلبہ سے خطاب
پاکستان میں بیماریوں کے متعلق کوئی الیکٹرانک ڈیٹا بیس دستیاب نہیں، ڈاکٹر حسن محی الدین
میڈیکل سائنس کی تاریخ میں پہلی مرتبہ جانور (خنزیر) کے دل کی کامیاب پیوند کاری کرنے والے ڈاؤ گریجویٹ ڈاکٹر صفدر محی الدین نے ڈاؤ انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ پروفیشنلز ایجوکیشن کے زیر اہتمام معین آڈیٹوریم میں نئے ریسرچر کے اعزاز میں تقریب سے بطور مہمان خصوصی خطاب کیا۔
ڈاکٹر حسن محی الدین کا کہنا تھا کہ رواں سال کے اوائل میں 7 جنوری کے روز جراحی کی جو تاریخ رقم ہوئی یہ میری پہلی کوشش نہیں تھی، جدید تحقیق کے لئے درجنوں کوششیں کر چکا تھا۔ 90 فیصد افراد نے حوصلہ شکنی کی لیکن مستقل مزاجی نے بالآخر کامیابی عطا کی اور انسانی زندگی بچانے کے لیے ایک نئی راہ کھلی۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے ڈاؤ انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ پروفیشنلز ایجوکیشن کے زیر اہتمام معین آڈیٹوریم میں نئے ریسرچر کے اعزاز میں تقریب سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب سے ڈاؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی، ڈاکٹر فرحان وکانی، ڈاکٹر شاہد شمیم و دیگر نے بھی خطاب کیا جبکہ اس موقع پرو وائس چانسلر پروفیسر نصرت شاہ، رجسٹرار ڈاکٹر اشعر آفاق ، پروفیسر سنبل شمیم، پروفیسر امبرینہ قریشی ودیگر سمیت اساتذہ و طلبا کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔
ڈاکٹر منصور محی الدین، (جو ڈاؤ گریجویٹ آف نارتھ امریکا ”ڈوگانا“ کے صدر بھی ہیں) نے کہا کہ تحقیق اور احساس محرومی ایک دوسرے کے مترادف ہیں، فرسٹریشن کا بوجھ آپ سہار نہیں سکتے اور دباؤ میں آ جاتے ہیں تو پھر آپ ریسرچ نہیں کرسکتے انہوں نے بتایا کہ جیسے ہی میں نے پہلا ریسرچ پروگرام شروع کیا تھا تو پروگرام بند ہوگیا۔ اس طرح مختلف اداروں کے ساتھ 5 ریسرچ پروگرام فنڈز کی عدم دستیابی کے باعث بند ہوگئے، مگر میں نے اپنی کوشش ترک نہیں کی اور بالآخر کامیابی ملی۔
ڈاکٹر منصور محی الدین نے کہا کہ ریسرچ کے شعبے میں مستقل مزاجی اور صبر کے ساتھ کی جانے والی کوششیں ہی رنگ لاتی ہیں، امریکا میں کچھ عرصہ قبل ہمارے کالج کے دوستوں نے ملیریا پر ریسرچ کا پروگرام بنایا تو میرا مشورہ تھا کہ ملیریا کی ریسرچ کے لئے پاکستان سے بہتر کوئی مقام نہیں ہو سکتا، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں کوئی الیکٹرانک ڈیٹا بیس دستیاب نہیں ہوتا جس کے نتیجے میں کالج کے دوست ملیریا پر ریسرچ کے لیے ڈیٹا جمع کرنے افریقہ کے ممالک گئے۔
ڈاکٹر منصور محی الدین نے کہا پاکستان میں بیماریوں کے متعلق الیکٹرانک ڈیٹا بیس موجود ہونا چاہیئے۔ میں امید کرتا ہوں کہ ڈاؤ یونیورسٹی کے پاس یقیناً اس کا انتظام ہوگا کیونکہ ڈیٹا کے بغیر کوئی بھی ریسرچ ممکن نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے پیشکش کی کہ ڈوگانا ریسرچ کے سلسلے میں بھرپور تعاون کرے گی اور ڈاؤ کے ساتھ ریسرچ پروگرام مل کر کرنے کو بھی تیار ہے۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے پروفیسر محمد سعید قریشی نے کہا کہ ڈاؤ یونیورسٹی ریسرچ کلچر کو فروغ دینا چاہتی ہے، پیش کیے گئے پروجیکٹس میں جو بھی مناسب ہو اس کی مالی معاونت کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم ڈاؤ یونیورسٹی میں ایک کایاپلٹ ریسرچ کلچر لانا چاہتے تھے یعنی ہیلتھ سائنسز کی تعلیم میں نت نئے معیارات طے کیے جا سکیں تاکہ ہمارا سفر ایکسیلینس ان ایجوکیشن، ریسرچ، کلینیکل کیئر اور کمیونٹی سروس کی جانب رواں دواں رہے اور قومی سطح پر بھی ایک اعلی معیار مقرر کیا جا سکے۔
پروفیسر محمد سعید قریشی نے کہا کہ رواں برس ڈاؤ یونیورسٹی کو مقامی، قومی، اور بین الاقوامی سطح پر 18 نئے ریسرچ پروجیکٹس گرانٹ ہوئے ہیں۔ پروفیسر محمد سعید قریشی نے کہا کہ ڈاکٹر منصور محی الدین نے پہلا زینو ٹرانسپلانٹ کر کے ڈاؤ کا نام دنیا میں سربلند کردیا ہے۔
تقریب کے اختتام پر وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی نے مہمان خصوصی اور مقررین کو شیلڈز پیش کیں جبکہ بہترین ریسرچ پروجیکٹ پیش کرنے والے ریسرچرز کو نقد انعام بھی دی