مہندی کا گہرا رنگ: اپنی جلد کو نہ جلائیں

مہندی کا گہرا رنگ: اپنی جلد کو نہ جلائیں

کیمیکل ملی مہندی سے بچیں، ماہرین

مہندی لگوانے سے الرجی کا شکار ہونے والی متاثرہ خاتون کا کہنا تھا کہ دو سال قبل عید پر ایک بار مہندی لگوائی تھی، جیسے ہی مہندی لگوائی تو میرے ہاتھوں میں جلن شروع ہوگئی تھی، جب بہت زیادہ جلن ہونا شروع ہوئی تو میں نے اپنے ہاتھ دھولیے، لیکن اتنی دیر میں میرے ہاتھوں پر مہندی کے نشان چھپ چکے تھے اور جلد سرخ ہوچکی تھی، اتنی زیادہ الرجی ہوئی کہ مجھے اسکن اسپیشلسٹ کے پاس جانا پڑا۔

عید سمیت خوشی کے تہواروں پر سجنا سنورنا کسے اچھا نہیں لگتا، بچے، بڑے، مرد و خواتین سب کی ہی کوشش ہوتی ہے کہ خوب اچھے سے تیار ہوں، لیکن خواتین کی تیاری مہندی کے بغیر ادھوری تصور کی جاتی ہے۔

لیکن کیا آپ کو معلوم ہے تیز اور جلدی رنگ جمانیوالے مہندی کے اشتہارات آپ کو مشکل سے دوچار کرسکتے ہیں کیونکہ جلدی اور تیز رنگ کے نام پر ان مہندیوں میں زہریلے کیمیکلز کی ملاوٹ کی جاتی ہے، مارکیٹ میں فروخت ہونیوالی ان ملاوٹ شدہ مہندی، کونز کی روک تھام کیلئے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے جارہے ہیں۔

کشور ذوالفقار نے مزید بتایا کہ مہندی لگوانے سے اتنی زیادہ الرجی ہوئی کہ مجھے اسکن اسپیشلسٹ کے پاس جانا پڑا، مجھے انہوں نے کچھ مرہم بتائے اور کافی عرصہ تک وہ لگانا پڑے تب جاکر جلد ٹھیک ہوئی لیکن اب بھی میرے ہاتھوں پر ہلکے سے نشان موجود ہیں۔

متاثرہ خاتون کا کہنا ہے کہ پہلے جب مہندی لگواتے تھے تو کیمیکل کی ملاوٹ نہیں ہوتی تھی اور خالص مہندی لگاتے تھے، یہی وجہ ہے کہ اب مہندی لگواتے ہوئے ڈر لگتا ہے، مارکیٹ میں ہر جگہ کیمیکل کی ملاوٹ والی مہندی موجود ہے۔

کیمیکل ملی مہندی لگوانے سے متاثر ہونیوالی گلشن اقبال کی خانسہ احتشام نے بتایا کہ میں آج سے 3 سال قبل چاند رات کا سوچتی ہوں تو خوفزدہ ہوجاتی ہوں کیونکہ تین سال قبل چاند رات پر مہندی لگوائی تھی، اُس لڑکی نے مجھے کون والی مہندی لگائی جو خطرناک کیمیکل سے ملاوٹ شدہ تھی اور اس مہندی کے نتیجے میں میرے ہاتھ سرخی مائل ہوگئے، مجھے شدید قسم کی جلن شروع ہوگئی اور بعد میں میرے ہاتھوں پر آبلے پڑگئے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ جس کی وجہ سے مجھے ڈرماٹولوجسٹ کے پاس جانا پڑا جنہوں نے مجھے کچھ آئنمنٹ اور صابن دیئے، میرے ہاتھ ٹھیک ہونے میں طویل عرصہ لگا۔

خاتون نے بتایا کہ آج بھی اس چاند رات کا سوچ کر خوفزدہ ہوجاتی ہوں اور یہی وجہ ہے کہ اب مہندی لگوانا چھوڑ دیا ہے اور جب تک مجھے یہ تسلی نہ ہو جائے کہ یہ مہندی آرگینک ہے تب تک مہندی لگوانے کا رسک نہیں لیتی۔

جلدی امراض کی ماہرین (ڈرماٹولوجسٹ) کہتی ہیں کیمیکل ملی مہندی کے نتیجے میں شدید قسم کے ری ایکشنز دیکھنے میں آرہے ہیں۔ سندھ گورنمنٹ اسپتال کورنگی نمبر 5 کی ڈرماٹولوجسٹ ڈاکٹر شرمین مصطفیٰ نے سماء ڈیجیٹل کو بتایا کہ ہمارے ہاں خوشی کا اظہار حنا (مہندی) کے ذریعے کیا جاتا ہے، اس لئے خواتین صرف عید ہی نہیں خوشی کے تمام تہواروں پر مہندی لگا کر اس کا اظہار کرتی ہیں، لیکن ہمارے ہاں اب تیز رنگ چڑھانے کیلئے مہندی میں مختلف کیمیکلز استعمال کئے جاتے ہیں جس سے بہت سی خواتین کو الرجی شروع ہوجاتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ان کی او پی ڈی میں ہر ماہ 3 سے 4 خواتین ایسی آتی ہیں، جنہیں مہندی اور بال ڈائی کرنے سے الرجی ہوئی ہوتی ہے، اصلی حنا یا مہندی کبھی الرجی نہیں کرتی ، لاسونیا ایک کمپاؤنڈ ہے، جس سے مہندی بنتی ہے، جسے برگ حنا بھی کہتے ہیں، بہت کم لوگ ہیں جو خالص مہندی رکھتے ہیں، ہم چاہتے ہیں بس جلدی سے رنگ آجائے، اس لئے ان میں کیمیکل استعمال کئے جاتے ہیں اور جب یہ جلد پر لگاتے ہیں تو اس کی وجہ سے کانٹیکٹ ڈرماٹائیٹس ہوجاتا ہے، یہ انفیکشن تو نہیں ہوتا لیکن یہ ایگزما کی ایک قسم ہوتی ہے، یا اسے ایریٹنٹ ڈرماٹائیٹس کہا جاتا ہے، اریٹنٹ اس لئے کہ یہ کمپاؤنڈز جب انسانی جلد پر لگتے ہیں تو اس کی وجہ سے آپ کو یہ ری ایکشنز ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر شرمین نے بتایا کہ زیادہ تر مہندی میں ٹولین اور ڈایامینزوبینزین استعمال کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے مہندی کا رنگ جلدی آتا ہے، کالی مہندی میں پی پی ڈی کمپاؤنڈز ہوتے ہیں جو زیادہ تر ہیئر ڈائیز میں ملائے جاتے ہیں اور زیادہ تر ہیئر ڈائیز میں سوئیر ری ایکشنز ہوتے ہیں، ہمارے پاس بہت سی پیچیدگیوں کے ساتھ لوگ او پی ڈیز میں آتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سوئیر ری ایکشن کی صورت میں اکثر کیسز میں ہاتھوں پر چھالے بھی بن جاتے ہیں، اس کی وجہ سے مریض شدید تکلیف میں آجاتے ہیں، جیسے جھلسے ہوئے مریضوں کی کیفیت ہوتی ہے، زیادہ تر کیسز وہ ہوتے ہیں جو مالز، بازاروں میں مہندی لگالیتے ہیں، عموماً مہندی خریدتے وقت یہ ضرور دیکھنا چاہئے کہ مہندی کہاں سے لے رہے ہیں۔

ڈاکٹر شرمین کا کہنا تھا کہ عام بازاروں سے مہندی خریدنے سے گریز کرنا چاہئے، جو لوگ آرگینک مہندی بناتے ہیں انہی سے مہندی لی جائے۔

چلڈرن اسپتال گلشن اقبال کی ڈرماٹولوجسٹ ڈاکٹر آمنہ سرور نے سماء ڈیجیٹل کو بتایا کہ آج کل زیادہ تر جو مہندی استعمال ہورہی ہے وہ کیمیکل کی ملاوٹ والی ہوتی ہے، اس میں پی پی ڈی کمپاؤنڈ استعمال ہوتا ہے، اس میں ری ایکشن کے امکانات ہوتے ہیں، یہ نہیں ہے کہ ہر کسی کو ری ایکشن ہوتا ہے لیکن اگر کسی کو ری ایکشن ہوتا ہے تو وہ درد اور جلن سے لے کر شدید قسم کا بھی ہوسکتا ہے، جس میں آبلے اور چھالے بھی پڑسکتے ہیں، جلد اُتر سکتی ہے، یوں کہہ لیجئے کہ چھوٹے سے چھوٹے ری ایکشن سے شدید ری ایکشن تک ہوسکتا ہے، یہ مسائل عام دیکھے جارہے ہیں۔

ڈاکٹر آمنہ نے مزید کہا کہ کونز مہندی بنانے والے تو لازمی کیمیکل استعمال کرتے ہیں تاکہ جلدی اور اچھا کلر آجائے، ہمارے پاس بہت سے مریض آتے ہیں، کچھ مریض تو چاند رات کو مہندی لگاتی ہی آجاتے ہیں کہ جلن شروع ہوگئی، جلد سرخ ہورہی ہے یا چھالہ بن گیا ہے، کچھ ایسے شدید ری ایکشنز بھی ہوتے ہیں کہ جو بہت سالوں تک جلد کا کلر اڑا دیتے ہیں، جیسے وہاں سفید رنگ کا ڈیزائن بنا ہوا ہے یا کوئی ٹیٹو بنایا ہو۔

انہوں نے بتایا کہ بال ڈائی کرنے کیلئے استعمال ہونے والا کیمیکل اتنا اسٹرانگ ہوتا ہے اس کے نتیجے میں بال بھی جھڑ سکتے ہیں، یہ اتنا شدید کیمیکل ہوتا ہے جب وہ جلد کو جلاسکتا ہے تو بالوں کی جڑوں کو بھی ظاہر ہے کمزور کرتا ہے اور بعد میں بالوں کی کوالٹی کو بھی خراب کردیتا ہے، بال ڈرائی اور رف ہوجاتے ہیں، پھر یہی بال جھڑنا اور گرنا شروع ہوجاتے ہیں، سر پر لگنے والا کلر آپ کے جسم کے باقی حصوں پر بھی ری ایکشن کرسکتا ہے۔

ڈاکٹر آمنہ سرور کا کہنا تھا کہ بچوں کی جلد بڑوں کے مقابلے میں زیادہ حساس ہوتی ہے کہ اس میں فوراً برننگ اور ریڈنس کے امکانات ہوتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جو کول ہے وہ کالی مہندی کے طور پر استعمال ہوتا ہے، یہ ری ایکشن کا سبب بننے میں سب سے بڑی وجہ ہے، اس میں بھی بالوں کے کلر میں استعمال ہونے والا پی پی ڈی کمپاؤنڈز استعمال ہوتا ہے۔

انہوں نے شہریوں کو مشورہ دیا کہ بغیر کیمیکل والی مہندی استعمال کریں، آرگینک مہندی مارکیٹ میں دستیاب ہے، مہندی خریدتے وقت یہ ضرور دیکھ لیں کہ کس جگہ سے کیا خرید رہے ہیں، آرگینک مہندی سے فوری کلر تو نہیں آتا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کا رنگ گہرا ہوتا جاتا ہے۔

ڈاکٹر آمنہ سرور نے کہا کہ اگر آپ نے کیمیکل والی مہندی لگائی ہے اور آپ کو جیسے ہی جلن، خارش یا کوئی علامت محسوس ہوتو فوراً اسے دھولینا چاہئے، موسچرائزر یا بے بی آئل فوراً لگالیں، اس کے نتیجے میں شدید قسم کے ری ایکشن سے بچا جاسکتا ہے، اگر آپ اس ری ایکشن کو برداشت کرنا شروع کردیں گے تو ری ایکشن شدید کی طرف چلا جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ ہمارے ہاں بھی 3 سے 4 کیس ماہانہ آجاتے ہیں، اس میں بچیاں اور بچے بھی ہوتے ہیں، بعض کیسز اتنی تاخیر سے بھی آتے ہیں کہ اُن میں پس پڑچکی ہوتی ہے اور زخم خراب ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں